محبت کی دیوانگی
محبت کی دیوانگی قسط نمبر 13
وہ دونوں خاموشی سے سفر کررہے تھے۔ کچھ دیر تصبیہا بولی)
موصب ۔۔۔(وہ موصب کی طرف پوری گھوم گئی)
ہاں بولو۔۔۔(وہ سامنے دیکھتے ہوئے بولا)
تم مجھ سے بہت نفرت کرتے ہونا؟ (وہ پتا نہیں کیا جاننا چاہتی تھی)
(موصب نے اسے دیکھا پھر بولا )
جب پتا ہے تو کیوں پوچھ رہی ہو؟(اس کا تنگ تصبیہا کو تنگ کرنے کا ارادہ تھا)
اس کا جواب سن کر وہ خاموش ہوگئی اورکھڑکی سے باہر دیکھنے لگی تو موصب نے اپنی مسکراہٹ روکی۔ اس کہ بعد تصبیہا نے کوئی بات نہیں کی ۔ رات انھیں راستے میں ہی ہوگئی تھی ۔ تصبیہا کی آنکھ راستے لگ گئی تھی ۔
موصب نے اسے دیکھا تو وہ اسے دیکھتا گیا ۔گاڑی روکھ کر وہ اس کی طرف مڑا ، اس کے چہرے پر آئے ہوئے بال ہٹائے اور اپنی سیٹ پر سر ٹیکا کر لمبی سانس لی اور سر اس کی طرف کیا اور بولا)
تمیہں لگتا ہے میں تم سے نفرت کرتا ہوں ۔ میں چاہ کر بھی نہیں کرپایا ۔ کیوں یہ بھی نہیں جانتا ۔کیوں دل بے چین ہوجاتا ہے جب تم دور ہوتی ہو میں نہیں جانتا، مجھے کیوں غصہ آجاتا ہے جب جہانگیر تمہیں دیکھتا ہے ۔میں نہیں جانتا تصبیہا ، مگر یہ باتیں میں تمہیں نہیں بتاوں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(وہ بہت آہستہ کہہ رہا تھا کہ وہ اٹھ ناجائے مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ سب سن چکی ہے ۔وہ جیسے ہی چپ ہوا تصبیہا نے آنکھیں کھول دیں۔م موصب ایسے بوکھلایا جیسے اس کی کوئی چوری پکڑی گئی ہو۔ تصبیہا نے کچھ نہیں کہا بس اسے دیکھا اور آگے دیکھنے لگی ۔موصب نے گاڑی اسٹارٹ کی تو وہ بولی )
گاڑی کیوں روکی تھی ۔۔۔(اس نے موصب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا)
بندہ تھک بھی جاتا ہے ۔میں انسان ہو مشین نہیں ۔۔۔(اس نے جس طرح جواب دیا تھا کنفیوز ہوکر تصبیہا کا دل ہی دل ہنسی روکنی مشکل ہوگئی مگر بہت مشکل سے اس نے روک لی )
اس نے سن تو نہیں لیا ؟(موصب نے دل میں سوچا)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تصبیہا میڈم کہاں ہے ؟ (ایک واڈ بوائے نے آکر شاہ سے پوچھا)
کیوں کیا کام ہے؟(شاہ نے اس سے پوچھا)
جی وہ ان کہ لیے کسی نے یہ بھیجا ہے۔۔(اس نے ایک گفٹ باکس اسے دیکھایا)
کون دے کر گیا ہے؟ (شاہ نے پوچھا)
کوئی آدمی آیا تھا اور بولا کہ تصبیہا میڈم کو دینا ہے۔
مجھے دو میں دے دوں گا(شاہ نے وہ گفٹ لیا اور وہاں سے چلا گیا)
وہ کفیٹیریا میں آیا تو وہ سب کہ ساتھ وہاں بیٹھی تھی شاہ نے اس کہا)
آپی یہ آپ کہ لیے آیا ہے (شاہ نے گفٹ تصبیہا کی طرف بڑھایا )
یہ کس نے دیا ؟(تصبیہا نے حیریت اور ناسمجھی سے کہا)
مجھے نہیں پتا واڈ بوائے دے کرگیا ہے ۔۔(شاہ نے جواب دیا)
یہ جہانگیر نے بھیجا ہوگا ۔۔(فائزہ نے جھٹ کہا تو تصبیہا کہ ساتھ ساتھ موصب نے بھی حیرت سے دیکھا)
جہانگیر ۔۔وہ کیوں بھیجے گا مجھے ؟(تصببیہا نے غصے سے کہا)
یار اس کی کل کال آئی تھی اس نے مجھ سے تمہارا نمبر مانگا تو میں نے کہا کہ تمہارے پاس تو موبائل نہیں ہے ،تو وہ حیران ہوا ۔(اس نے تصبیہا سب بتادیا ۔موصب کا خون کھول گیا وہ اٹھا تصبیہا گھورا اور وہاں سے چلا گیا ۔تصبیہا کا غصے سے برا حال تھا کہ کہیں جہانگیر اسے مل جائے اور وہ اس کامنہ توڑ دے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس لڑکی کا پتا کرواں کہ کہا رہتی ہے ۔ کون کون ہے اس کہ گھر وغیرہ وغیرہ ۔۔۔(جہنگیر نے ایک بندے سے کہا)
جی سر ہوجائے گا۔۔(وہ آدمی کہتا باہر نکل گیا)
جہانگیر نے موبائل کھولا اور اس میں تصبیہا کی تصویر دیکھتے ہوئے بولا)
مجھے اس لمحے کا شدد سے انتیظار ہے جب تم میرے پاس ہوگی۔۔(وہ کرسی سے سر ٹیکا کر تصویر کو دیکھتے ہوئے بولا)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موصب فائزہ کی باتیں سن کراس دماغ گھوم گیا تھا ۔وہ سیدھا گھر آگیا تھا ۔ تصبیہا پورے ہوسپیٹل میں اسے ڈھونڈ رہی تھی پھر سعد سے اسے پتا چلا کہ وہ تو گھر چلا گیا ہے ۔ تصبیہا کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کرے ۔پھر وہ بھی گھر چلی گئی ۔ گھر پہنچی تو وہ گھر کا حلیا دیکھ کر وہ پریشان ہوگئی ۔۔۔ہر چیز بکھری ہوئی تھی جیسے اٹھا اٹھا کر پھکیں ہوں ۔)
موصب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔موصب ۔۔۔۔۔۔(وہ موصب کو آواز دیتی اندر آئی تو وہ ڈریسنگ کہ سامنے کھڑا تھا ۔۔)
موصب یہ سب کیا ہے؟ (تصبیہا نے اس سے پوچھا تو اس نے اپنا ہاتھ ڈریسنگ پر اتنی زور سے مارا کہ وہ کرچی کرچی ہوگیا۔ تصبیہا سہم گئی ۔وہ مڑا اور تیزی سے باہر نکل گیا۔تصبیہا بھی اسے روکنے کی غرض سے بھاگی۔۔۔)
موصب ۔۔۔موصب روک جاو (تصبیہا اسے آواز دیتی آئی اور دونوں ہاتھوں سے اس کا بازوں پکڑ کر روکا )
روک جاو پلیز ، (وہ التیجا کرتے ہوئے بولی تو بولا)
ہاتھ چھوڑو تصبیہا۔۔۔(اس نے ایک جھٹکے سے اپنا بازو چھوڑوایا تو تصبیہا غصے سے بولی)
آخر تمہارا مسلئہ کیا ہے ہاں ؟ کیوں تم اتنا غصہ کررہے ہوں ؟ایسا کیا کردیا ہے میں نے ؟ اور اس نے مجھے گفٹ بھجا تو تمہیں کیوں غصہ آرہا ہے ؟ تم تو مجھ سے شدید نفرت کرتے ہونا پھر یہ سب کیا ہے ؟ اور مجھے پتا ہے بہت جلد تم مجھے چھوڑ بھی دو گے۔۔۔۔۔۔(اسے غصہ ہی آگیا وہ چلاتے ہوئے بولی ۔ وہ اس کی فیلگ کو جانتے ہوئے بولی شاید اس کہ منہ سے کچھ سنا چاہتی تھی)
موصب روکا اور اس کہ قریب آیا اور ایک جھٹکے سے اسے اپنے قریب کیا اور بولا)
صرف ایک بات کا جواب دو ۔۔۔(اس کی آنکھیں سرخ ہورہیں تھیں ، وہ تصبیہا کہ بہت قریب تھا ۔اس کے لفظوں کی تپیش اسے اپنے چہرے پر محسوس ہوئی ) کیا تم مجھ سے محبت کرتی ہو؟ (وہ اس کی آکنھوں میں جھانکتے ہوئے بولا) بولو (اس نے تصبیہا کو جھنجھوڑ دیا۔ موصب کی آنکھوں سے اس کی دیوانگی واضح تھی اسے کسی واضاحت کی ضرورت نہیں تھی اور تصبیہا تو سن ہی چکی تھی اس کے دل کی بات ۔
تصبیہا نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اپنا سر ہاں میں ہلایا ۔۔۔۔اس کا جواب ملتے ہی موصب نے اسے اپنی بانہوں میں بھر لیا ۔تصبیہا کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔)
وہ کچھ نہیں بولا نا اپنی محبت کا اظہار کیا نا اس کے سوالوں کا کوئی جواب دیا بس چپ چاپ اپنی انکھیں بند کیے اسے انہوں میں کھڑا تھا ۔کچھ دیر بعد تصبیہا نے اپنے آپ کواس کی بانہوں سے آزاد کرایا اور اندر بھاگ گئی۔ موصب کا غصہ تھوڑا کم ہوگیا تھا تصبیہا کا جواب جاننے کہ بعد ۔ وہ اندر آیا تو وہ اس کا بکھرا ہوا سامان اٹھا رہی تھی ۔ موصب کھڑا اسے دیکھتا رہا پھر اس کہ ساتھ مل سامان اٹھانے لگا ۔ تصبیہا نے اسے دیکھا اور اندر کمرے میں چلی گئی ۔ )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سر آپ کا کام ہوگیا ہے ۔(ایک آدمی جہانگیر کہ کمرے میں آیا اور اس سے بولا)
کیا پتا لگا ؟(جہانگیر نے لیپ ٹوپ بند کرتے ہوئے پوچھا )
سر وہ ایک ہوسپیٹل میں ایک ڈاکٹر کی اسیسٹینٹ ہے ۔
یہ تو مجھے بھی پتا ہے ۔۔۔(وہ چڑ کہ بولا )
سر وہ رہتی بھی اسی ڈاکٹر کہ گھر میں ہے ۔۔(اس نے جب بتایا تو جہانگیر شوکٹ رہ گیا)
کیا۔۔۔یہ کیا بکواس کر رہے ہو (اس نے غصے سے پوچھا)
سر میں ٹھیک کہہ رہا ہو اور ایک اور بات جو بہت حیرانی والی ہے ۔۔
وہ کیا؟(جہانگیر نے اس سے پوچھا)
سر وہ اس ڈاکٹر یعنی موصب کی بیوی ہے اور یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں ۔۔
(اس آدمی نے جیسے ہی کہا جہانگیر نے اسے کالر سے پکڑکر دیوار سے لگادیا اور غصے سے بولا)
جانتا بھی ہے کس کہ بارے میں کہہ رہا ہے اگر یہ خبر غلط ہوئی تو تیرا وہ حال کروں گا کہ تیری سوچ ہے۔۔(اس کی انکھیں غصے سے سرخ ہورہی تھیں )
سر میں ۔۔میں جھوٹ نہیں کہہ رہا (وہ ڈرتے ہوئے بولا)
(جہانگیر کا غصے سے برا حال تھا اس نے دیوار میں اپنا ہاتھ مارا ۔۔۔)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آآآآآآآآ۔۔۔۔۔(تصبیہا کی آواز سن کر موصب فورا اندر آیا تو تصبیہا کہ ہاتھ سے خون بہہ رہا تھا )
یہ کیا ہوا؟(وہ فکرمندی سے بولا اور اس کا ہاتھ دیکھنے لگا)
کانچ اٹھارہی تھی تولگ گیا ٹھیک ہوجائے گا۔(یہ کہتے ہوئے اس نے اپنا ہاتھ چھوڑوانا چاہا )
روک جاو ۔۔آرہا ہوں ۔۔(وہ اسے ہدایت دیتا ہوا چلا گیا اور فرسٹ آیڈ باکس لے کر ایا اور اس کے ہاتھ سے کانچ نکالا جو اندر گھوس گیا تھا ۔تصبیہا چیخی تو نہیں مگر درد سے کہ آنسو نکل آئے جب موسم دیکھا توبولا)
زیادہ درد ہورہا ہے ؟(اس کہ پوچھنے پر تصبیہا نے بھیگی آنکھوں سے اسے دیکھا اور ہاں میں سر ہلایا تو موصب نے اپنے ہاتھوں میں اس کاچہرا لیا اور انگھوٹھے سے اس کہ آنسو صاف کیے۔ تو تصبیہا نے آنکھیں بند کرلیں ۔ موصب نے اپنے ہونٹ اس کی پیشانی پر رکھ دیئے ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہانگیر کا غصے سے برا حال تھا اس کابس نہیں چل رہا تھا کہ کیا کردے ۔اسے یقین نہیں آرہا تھا موصب اس کا دوست اس نے اس سے یہ بات چھوپائی اور تصبیہا اس کا خیال آتے ہی جہانگیر کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔زندگی میں پہلی بار کسی سے محبت کی تھی اور وہ بھی کسی کی بیوی نکلی اور وہ بھی اس کہ دوست کی یہ سوچ سوچ کر اس کا دماغ معوف ہو رہا تھا۔